Monday 4 August 2014

ہمارا پارٹ ٹائم لیڈر

اتنی ناکارہ لیڈرشپ کی مثال مشکل سے ملیگی جس میں کسی دوراندیشی کی کوئی جھلک نہ ہو-
"کسی لیڈر کی سب سے اہم خصوصیت وہ ہوتی ہے جسے ہر شخص تسلیم کرے" --- آندرے موروائے
بدقسمتی سے، ہمارے تیسری مرتبہ کے منتخب وزیراعظم پر یہ خصوصیت صادق نہیں آتی- ایک ایسے وقت جبکہ ہماری فوجیں عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک نہایت مہلک جنگ میں مصروف ہیں اور سینکڑوں اور ہزاروں لوگ شمالی وزیرستان میں اپنے گھروں سے بےگھر ہیں اور انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، ہمارے قائد سعودی عرب میں دس روزہ روحانی فیض کے سالانہ دورہ پر تشریف لے گئے-
ان کے مذہبی عقیدت مندی کے جذ بہ پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے لیکن ایک قائد کے طور پرلوگ ان سے اپنے فرائض پر توجہ دینے کی امید کرتے ہیں جس کیلئے ان کو لوگوں نے منتخب کیا ہے- یہ یقینا ایک ایسے ملک کیلئے نارمل صورت حال نہیں ہے جو ایک تنازعہ اور اس کے نتیجے میں شدید انسانی بحران کی زد میں ہے-
ایسے مشکل وقت میں اتنے طویل عرصے تک ملک سے دور رہنا اور وہ بھی ذاتی اغراض کیلئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکمرانی ان کی ترجیحی فہرست میں کتنے نچلے درجہ پر ہے- کیا ہمارے لیڈر کو اپنی ذاتی نجات اور بخشش کی بجائے ملک میں قومی سلامتی کے مشکل مسائل سے نمٹنے کیلئے یہاں موجود نہیں ہونا چاہئے تھا؟
کسی دوسرے ملک میں، ایک لیڈر کٹھن حالات میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرے گا- لیکن نوازشریف کے معاملے میں ایسا نہیں ہے جنہیں بہتر طور پر ایک 'پارٹ ٹائم لیڈر' کی طرح بیان کیا جاتا ہے جنہیں ریاست کے معاملات چلانے میں بہت کم دلچسپی ہے- اسی وجہ سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کہ ان کی پارٹی کی مقبولیت کے درجے میں اتنے کم عرصے میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے-
یقینی طور پر، کسی بھی حکمران کیلئے عوامی مقبولیت کے اس درجے کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ اقتدار میں آتا ہے- تاہم نوازشریف کی مقبولیت میں ایسی گراوٹ اور وہ بھی ان کی حکومت کے تیسرے دور کے پہلے سال کے اندر پاکستانی پیمانے سے بھی ایک حیران کن بات ہے، اگر عوامی رائے پر بھروسہ کیا جائے تو-
پاکستان تحریک انصاف سے بہت پیچھے، یہ پارٹی عوامی مقبولیت میں پی پی پی سے بھی پیچھے رہ گئی ہے- حالیہ رائے دہی کے مطابق جو ہیرالڈ/ایس ڈی پی آئی نے کروائے تھے، صرف 17 فیصد لوگوں نے کہا کہ اگر آج انتخابات کروائے جائیں تو وہ پی ایم ایل ن کو ووٹ دینگے. اس کے مقابلے میں 33 فیصد پی ٹی آئی کیلئے اور پی پی پی کیلئے 19 فیصد جس کا پچھلے انتخابات میں صفایا ہو گیا تھا-
مقبولیت میں اتنی کمی پر تعجب نہیں ہوتا ہے، جس کی وجہ ان کی کمزور کارکردگی اور حکمرانی کا انداز ہے- ان کیلئے ملک کی حیثیت ایک باضابطہ کارگر جمہوری ادارے کی بجائے ایک خاندانی کمپنی کی طرح ہے- ساری طاقت خاندان کے چند ممبروں کے ہاتھوں میں جمع ہے- اور اب ایک باصلاحیت بیٹی کی تربیت موزوں وارث بنانے کیلئے کی جارہی ہے- پارٹی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اور سارے فیصلے صرف شریف صاحب کی مرضی سے کئے جاتے ہیں- باقی سب کو الگ تھلگ کردینے کی وجہ سے پرانے اور بزرگ پارٹی ممبران میں شدید غلط فہمیاں جنم لینے لگی ہیں.
ایک مرتبہ تو، آصف علی زرداری بھی درست ثابت ہوئے جب انہوں نے کہا کہ لوگوں نے نوازشریف کو وزیراعظم بننے کیلئے ووٹ دیا تھا، بادشاہ بننے کیلئے نہیں- اور وہ بادشاہت لاہور سے راج کرتی ہے جہاں شریف صاحب زیادہ تر اس وقت ہوتے ہیں جب وہ پاکستان سے باہر نہیں ہوتے ہیں- ملک کا باقی حصہ ان کیلئے وجود نہیں رکھتا-
بار بار پوچھا جانیوالا ایک سوال یہ ہے کہ موجودہ شریف حکومت وزیراعظم کی پچھلی حکومتوں سے کیونکر مختلف ہے-
جواب بہت آسان ہے: یہ ان سے بہت زیادہ بدتر ہے- نوازشریف میں فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ ایک سیاسی لیڈر کا کہنا تھا، "ان کے اندر آگ نہیں ہے"
تاہم طاقت کے گھمنڈ میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے- ماڈل ٹاؤن کا سانحہ اور پولیس کا تشدد نوازشریف کی حکومت کا طرۂ امتیاز ہے- طاہرالقادری کی آمد پر ان کی انتظامیہ کا دہشت زدہ ردعمل شریف حکومت کی بڑھتی ہوئی سیاسی بیگانگی کا ثبوت ہے-
اقتدار میں ان کا پہلا سال مایوس کن ہے- اتنی ناکارہ لیڈرشپ کی مثال مشکل سے ملیگی جس میں کسی دوراندیشی کی کوئی جھلک نہ ہو- پارلیمنٹ سے ان کے تنفر کا مظاہرہ گذشتہ 14 مہینوں میں ان کی بہت کم حاضری سے ہوتا ہے- نتیجتاً پارلیمنٹ ایک ایسا فورم بن گیا ہے جہاں اہم پالیسیوں اور مسائل پر کوئی بحث نہیں ہوتی-
نوازشریف اقتدار میں واپس آئے تو اس وعدے کے ساتھ کہ پاکستان کو اقتصادی بحالی اور بہتر حکمرانی کے راستے پر لے جانے کی کوشش کرینگے- لیکن ان کی ترقی کے بارے میں سوچ میٹرو بسوں اور موٹر ویز تک ہی محدود ہے-
یقیناً، ان کی حکومت نے محدود مدت کا اقتصادی استحکام تو کسی حد تک حاصل کیا ہے، لیکن بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی عدم موجودگی میں طویل المدتی ترقیاتی اسکیموں پر کام مشکل ہی لگتا ہے-
مسئلہ یہ ہے کہ ان کی نظر میں معیشت میں بہتری کا پیمانہ یہ ہے کہ غیرملکی زر مبادلہ اور روپے کی قیمت میں بہتری ہوجانا کافی ہے- اور جس اہانت آمیز طریقے سے وزارت خزانہ نے معیشت میں بڑھاوے کے اعدادوشمار کو چالاکی سے اپنی مرضی کے مطابق بنایا تاکہ معیشت کے بارے میں ایک مثبت تصویر پیش کی جاسکے- لیکں جب آئی ایم ایف کو اصلی اعداد و شمار دئے گئے تو اس جھوٹ کا پول کھل گیا-
پی ایم ایل ن کی مقبولیت کے درجے میں کمی کی ایک بڑی وجہ توانائی کے بحران سے نمٹنے میں حکومت کی مکمل ناکامی بھی ہے- حکومت کے توانائی کی پیداوار میں اضافہ کے دعوے کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ہے-
کہاجاتا ہےکہ سرکولر قرضوں کا حل نہ ہونیوالا قضیہ بجلی کی سپلائی میں اور زیادہ ہونیوالی کمی کی اصل وجہ ہے- حکومت نے بجلی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے یا بقایا جات کی وصولی کیلئے کچھ نہیں کیا ہے-
کافی ٹال مٹول کے بعد، آخرکار میاں نوازشریف نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن ابھی بھی وہ اس ضروری مہم کی پوری ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں یہاں تک کہ بے گھر لوگوں کی ذمہ داری بھی فوج کے حوالے کردی گئی ہے-
جو چیز سب سے زیادہ خطرے والی ہے وہ حکومت کا بڑے شہروں میں فوج کے ذریعے اہم عوامی تنصیبا ت کی حفاظت کا فیصلہ ہے- اسی سلسلے میں آئین کی دفعہ 243 کے مطابق فوج کو زیادہ اختیارات دینے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے جو کہ سویلین حکومت کی ذمہ داری سے مکمل طور پر ہاتھ دھو لینے کے مترادف ہے-
فوج کے شہروں میں لا اور آرڈر برقرار رکھنے کی ذمہ داری کا مطلب بتدریج فوجی قبضہ بھی ہوسکتا ہے- یہ تقریباً 1998ء کے عمل کو دہرانے کے برابر ہے جب شریف حکومت نے فوج کو ہر کام کیلئے استعمال کرنے کا رواج شروع کیا تھا جس کی شروعات بجلی کے میٹر سے شروع کی گئی تھی-
بظاہر یہی لگتا ہے کہ ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا- ملک کو درپیش گمبھیرمسائل سے نمٹنا ایک پارٹ ٹائم لیڈرشپ کے بس کی بات ہے بھی نہیں-

No comments:

Post a Comment