Wednesday 6 August 2014

ریاست کے سائے سے محروم لوگNationality less people in the world,



ایک لمحے کے لئے تصور کریں، اگر کسی حملے میں امریکہ کے تین لاکھ عام شہری ہلاک ہوجائیں، تو امریکہ کا حملہ آوروں کو دیا جانے والا جواب کس قدر شدید ہوگا۔
پر امریکہ کے بجائے اسی تناسب کی صورتحال غزہ میں پیش آئی ہے، جہاں 18 لاکھ کی آبادی میں سے 1800 شہریوں نے اسرائیل کے بے رحمانہ حملوں میں اپنی جانیں گنوا دی ہیں۔
یہ آبادی کا تقریباً 0.1 فیصد بنتا ہے۔ ہوسکتا ہے کے یہ شماریہ بہت چھوٹا محسوس ہو، لیکن اگر کسی واقعے میں امریکہ کے 0.1 فیصد شہریوں کی جانیں ضائع ہوجائیں، تو ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔
مغربی کنارے اور غزہ میں رہنے والے فلسطینی شاید دنیا میں حقوق سے سب سے زیادہ محروم ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے، جس کی اپنی کوئی ریاست نہیں ہے۔ بغیر ریاست کے ہونے کا مطلب یہ ہے کے ایک دوسری نیشن-اسٹیٹ اس پر کبھی بھی بمباری و شیلنگ کر سکتی ہے۔ اور انسانی قتل عام کے ناقابل تردید شواہد کی موجودگی کے باوجود دوسری نیشن-اسٹیٹس ان فلسطینیوں کے بجائے اسی نیشن-اسٹیٹ کی پشت پناہی کرینگی۔
کالونیل دور (آبادیاتی دور) کے بعد کے افریقہ، مڈل ایسٹ، اور ایشیا میں بہت سارے مختلف گروپ رہتے ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یہ تمام گروپ ایک ایسی دنیا میں قانونی حیثیت حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں، جہاں تمام اقوام کو نیشن-اسٹیٹ ماڈل کے تحت دیکھا جاتا ہے۔
غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، جب سمندر کنارے فٹ بال کھیل رہے بچوں کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے، اور پھر بچوں کو ہی انکی اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
نسلوں کے بعد نسلیں پناہ گزین کیمپوں میں پرورش پا رہی ہیں۔ یہ حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ مسائل سے نمٹنے اور حل کرنے کے بارے میں ہماری قابلیت صرف رٹی رٹائی تھیوریز تک محدود ہے۔ افغانوں، بہاریوں، کردوں، اور فلسطینیوں کی مشکلات جو کہ دہائیوں سے حل نہیں ہوئیں، یہ وقت ہے کہ عالمی برادری انکے دیر پا حل کے لئے نئے ماڈل تشکیل دے، جن سے آنے والی نسلوں کو کیمپوں کی ذلّت آمیز زندگی سے بچایا جا سکے۔
جو لوگ 80 کی دہائی میں پاکستان کے بڑے شہروں رہ چکے ہیں، انہوں نے افغان پناہ گزینوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پہلے پشاور اور کوئٹہ کو اور پھر ملک کے جنوبی حصّوں بشمول کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔
مجھے یاد ہے کے 80 کی دہائی کے وسط میں جب میں راولپنڈی کے گورڈن کالج جارہا ہوتا تھا، تب راستے میں کئی افغان بچے کچرے کے ڈھیروں پر سے دھاتی اور دیگر ردی اشیا ڈھونڈ رہے ہوتے تھے۔ آج تیس سال بعد مجھے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں صرف افغان نہیں بلکہ ایسے اور بھی کئی بچے نظر آتے ہیں۔
کئی دہائیوں پر محیط افغان جنگ نے افغانستان کی نئی نسلوں کی ایک آرام دہ زندگی اور ایک پر کشش مستقبل کی خواہش پر پانی پھیر دیا ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاری پراکسی وار، جس میں پاکستانی کرائے کے قاتلوں اور عرب دنیا نے اہم کردار ادا کیا، نے افغانستان کے مسئلے کو اتنا پیچیدہ کر دیا ہے، کہ صدارتی انتخابات کے مہینے بھر بعد بھی اب تک صدر کا انتخاب نہیں ہو سکا ہے۔
ایک طرح سے افغان مہاجرین بہاریوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں، کیونکہ بہاریوں کو پاکستان میں پناہ گزین بن کر رہنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ بہاری ہمیشہ سے کیمپوں تک محدود ہیں، اور کوئی بھی ریاستی یا عالمی ادارہ انکی مشکلات کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔
اسی طرح سے ایک گروپ کرد ہے، جس کو صرف ایک نہیں بلکہ کئی ریاستوں کے جبر کا سامنا ہے۔ انکی واضح طور پر جدا زبان، ثقافت، تاریخ، اور ریاست کے حصول کی خواہش انھیں ایک آزاد ریاست کا موزوں امیدوار بناتی ہے۔
ترکی، عراق، اور ایران کی جانب سے کرد علاقوں پر دعویٰ تو کیا جاتا ہے، پر ان ملکوں کو کردوں سے نہ کوئی ہمدردی ہے، اور نہ انکی کردوں سے کوئی نسبت ہے۔ کالونیل دور کے اختتام پر جب دنیا میں نئے ممالک وجود میں آئے، اور زمین کے چہرے پر سرحدوں کے نام پر نئی لکیریں کھینچی گئیں، تو کردوں کو ایک علیحدہ ریاست دیے بغیر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ کردوں سے تھوڑی سی ہمدردی صرف ان مسلم ملکوں کے سربراہان نے دکھائی، جو آج کردستان کے علاقوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
فلسطینی بھی اسی طرح بغیر ریاست کی ایک قوم ہے۔ نہ تو اس قوم کا اپنا کوئی پاسپورٹ ہے، نہ کرنسی، نہ خزانہ۔، نہ مالیاتی پالیسی، اور نہ ہی خارجہ پالیسی۔ نیشن-اسٹیٹس کی دنیا میں فلسطینی بلکل اجنبی ہیں۔
ایسی صورت میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اسرائیل نے 1800 فلسطینیوں، جس میں غالب اکثریت شہریوں (بشمول عورتوں اور بچوں) کی ہے، کو مار ڈالا ہے، یا سویلین انفرا اسٹرکچر تباہ کر ڈالا ہے، یا اقوام متحدہ کے قائم کردہ شیلٹرز پر بھی بمباری کی ہے۔ فلسطینیوں کے پاس کوئی ریاست نہیں، جو انکا کیس لڑے۔
فلسطینیوں کی پسماندہ حالت دنیا کے سامنے پیش کرنے والے صرف مٹھی بھر آزاد میڈیا ہاؤسز اور اقوام متحدہ کے بے خوف کارندے ہیں، جو اپنے کیریئرز اور اپنی جانیں داؤ پر لگا کر فلسطین میں ہونے والی تباہی اور قتل و غارت کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ اگر فلسطینیوں کی اپنی کوئی ریاست ہوتی، تو وہ دنیا کی دوسری قوتوں کے ساتھ اپنی سرحدیں محفوظ کرنے کا معاہدہ کر سکتی تھی۔ فلسطینی ریاست عالمی اداروں کو اسرائیلی جارحیت روکنے کے لئے زیادہ مؤثر طور پر کہ سکتی تھی۔
فلسطینی، کرد، بہاری، اور کچھ حد تک افغان، ان لوگوں کی مثال ہیں، جن کے پاس وہ کوئی شیلٹر یا تحفّظ نہیں جو ایک ریاست اپنے شہریوں کو فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بغیر ریاست کے جیتے رہنے دینا نہ صرف انکی مشکلات کو جاری رکھنے کا سبب بنے گا، بلکہ عالمی امن و تحفّظ کے لئے بھی کئی خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔
دنیا بھر میں ایسی بے یار و مددگار اقوام کو ریاستی تحفّظ فراہم کرنے کے لئے ایک نئے اور مضبوط چارٹر کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment